Header Ads

CODESMITE
  • সাম্প্রতিক লেখা:

    دنیا انڈیا اور پاکستان کی جنگ کو کیسے دیکھتی ہے اور پاکستان کے اندر رہنے والی اقوام اس جنگ کو کیسے دیکھتی ہیں؟ شعیب درازئی

     دنیا انڈیا اور پاکستان کی جنگ کو کیسے دیکھتی ہے اور پاکستان کے اندر رہنے والی اقوام اس جنگ کو کیسے دیکھتی ہیں؟

    شعیب درازئی

    جب بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے، تو دنیا کی نظریں فوری طور پر ان دو ایٹمی طاقتوں پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔ عالمی برادری کی اولین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ خطے میں جنگ نہ ہو، کیونکہ دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، اور کسی بھی بڑے تصادم کے نتائج نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔

    لیکن عالمی بیانیے اور پاکستان کے اندر رہنے والی محکوم اقوام کی سوچ میں ایک نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ دنیا جس جنگ کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے، وہی جنگ کئی پاکستانی اقوام، بالخصوص بلوچ اور پشتون عوام، ایک “مثبت تبدیلی” کے امکان کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان اقوام کے لیے یہ جنگ پاکستان کے ریاستی جبر کے خلاف ایک موقع بن کر سامنے آئی ہے۔



    عالمی برادری کا مؤقف: ایٹمی جنگ سے بچاؤ

    اقوام متحدہ، امریکہ، چین، یورپی یونین اور دیگر عالمی طاقتیں ہمیشہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کروانے کی کوشش کرتی ہیں۔ عالمی طاقتوں کو ڈر ہے کہ کوئی بھی جنگ غیر ارادی طور پر ایٹمی تصادم میں تبدیل ہو سکتی ہے، جو انسانی تاریخ کی بدترین تباہی کا پیش خیمہ ہو گی۔

    پاکستانی ریاست کے خلاف محکوم اقوام کا مؤقف

    لیکن پاکستان کے اندر بسنے والی مظلوم اقوام، بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام، اس جنگ کو ایک موقع سمجھتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ ریاست پاکستان نے ستر سال سے زائد کے عرصے میں ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا، وہ جنگ سے کم نہیں تھا۔
    • بلوچستان:
    1948 سے اب تک بلوچستان میں پاکستان کے خلاف مزاحمت جاری ہے۔ بلوچ قوم کی بڑی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان نے بلوچ سرزمین کو فوجی طاقت سے زبردستی الحاق کیا، اور تب سے ان پر ظلم جاری ہے۔
    2005 کے بعد ریاستی جبر میں غیر معمولی شدت آئی۔ لوگوں کو اغوا کرنا، مسخ شدہ لاشیں پھینکنا، سیاسی آوازوں کو دبانا، اور فوجی آپریشنز بلوچستان میں معمول بن گئے۔ بچوں، عورتوں، بزرگوں — کسی کو نہیں بخشا گیا۔
    بلوچ عوام آج بھی پاکستان کے کسی بھی قومی مفاد یا جنگی حکمتِ عملی کا حصہ بننے کو تیار نہیں۔
    • پشتون قوم:
    پشتون قوم نے ماضی میں ہمیشہ پاکستان کا دفاع کیا — چاہے وہ 1965 اور 1971 کی جنگیں ہوں، یا 80 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد، یا نائن الیون کے بعد امریکہ اور نیٹو کے خلاف مزاحمت۔
    پاکستانی ریاست نے مذہبی جذبات کو استعمال کرکے پشتونوں کو جہادی جنگوں میں جھونکا۔ مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پشتون علاقوں میں بدترین دہشتگردی، ڈرون حملے، فوجی آپریشنز اور اجتماعی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔
    اب 2020 کے بعد کی نسل کی سوچ مختلف ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) جیسے پلیٹ فارمز پر اب ہزاروں نوجوان سوال کر رہے ہیں کہ ان کی زمین کو جنگ کا میدان کیوں بنایا جاتا ہے۔
    اس بار بہت سے پشتون بھی اس جنگ کو ریاستی کمزوری کے طور پر دیکھ رہے ہیں، اور وہ پاکستان کی دفاعی جنگوں سے لاتعلقی اختیار کر رہے ہیں۔

    ریاستی بیانیہ ناکام ہو رہا ہے؟

    بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پاکستان آرمی کے لیے نہ صرف زمینی حمایت کم ہوئی ہے بلکہ اخلاقی جواز بھی ختم ہو رہا ہے۔ جہاں کبھی ریاستی بیانیہ “دشمن ملک” کے خلاف اتحاد پر زور دیتا تھا، آج وہی بیانیہ ان علاقوں میں بے اثر ہو چکا ہے۔
    سوشل میڈیا پر بلوچ اور پشتون نوجوان کھلے عام یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر پاکستان بھارت کے ساتھ جنگ میں معصوم شہریوں کی ہلاکت کو عالمی جرم قرار دیتا ہے، تو پھر بلوچستان اور وزیرستان میں معصوم لاشوں کا حساب کون دے گا؟

    نتیجہ: دو نظریات، ایک جنگ

    یہ بات واضح ہے کہ بھارت اور پاکستان کی ممکنہ جنگ کو دنیا اور پاکستان کے اندر موجود اقوام مختلف زاویوں سے دیکھتی ہیں۔
    دنیا اسے “تباہی سے بچنے کی جنگ” سمجھتی ہے،
    جبکہ محکوم اقوام اسے “ریاستی ظلم سے نجات کی جنگ” کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔

    یہ فرق پاکستان کے اندرونی بحران، نیشنلزم کی کمزور ہوتی گرفت، اور اقلیتوں کی شناختی جدوجہد کو ظاہر کرتا ہے — اور شاید وقت آ گیا ہے کہ دنیا اس اندرونی کہانی کو بھی سنے، نہ کہ صرف دو ریاستوں کے ایٹمی خوف کو 

    No comments